اس دل نے تیرے بعد محبت بھی نہیں کی
حد یہ کہ دھڑکنے کی جسارت بھی نہیں کی
تعبیر کا اعزاز ہوا ہے اسے حاصل
جس نے میرے خوابوں میں شراکت بھی نہیں کی
الفت تو بڑی بات ہے ہم سے تو سرِشہر
لوگوں نے کبھی ڈھنگ سے نفرت بھی نہیں کی
آدابِ سفر اب وہ سکھاتے ہیں جنہوں نے
دو چار قدم تھے یہ مسافت بھی نہیں کی
کیا اپنی صفائی میں بیاں دیتے کہ ہم نے
ناکردہ گناہوں کی وضاحت بھی نہیں کی
خاموش تماشائی کی مانند سرِ بزم
سو زخم سہہ لیے دل پہ شکایت بھی نہیں کی
اس گھر کے سبھی لوگ مجھے چھوڑنے آئے
دہلیز تلک اس نے یہ زحمت بھی نہیں کی
اس نے بھی غلاموں کی صفوں میں ہمیں رکھا
اس دل پہ کبھی جس نے حکومت بھی نہیں کی
Post a Comment Blogger Facebook