میرے آنسوں میرے اندر گرتے ہیں
جیسے دریا بیچ سمندر گرتے ہیں
تیری یادیں وہ طوفان اٹھاتی ہیں
اک اک کرکے سارے منظر گرتے ہیں
کتنی لہریں شعروں میں ڈھل جاتی ہیں
سوچ کے پانی میں جب پتھر گرتے ہیں
ہم نے ٹھوکر کھا کر چلنا سیکھا ہے
اور ہیں وہ جو ٹھوکر کھا کر گرتے ہیں
رونے والے یہ تجھ کو معلوم نہیں
تیرے آنسوں میرے دل پر گرتے ہیں
تم بس اس کا روگ لگا کر بیٹھے ہو
سپنوں کہ یہ گھر تو اکثر گرتے ہیں
کاٹ رہا ہے کوئی آنکھوں میں
تکیے پر یہ خواب جو شب بھرگرتے ہیں
Post a Comment Blogger Facebook