0
لبوں کی سرسراہٹ سے بدن کے چُور ہونے تک
میں تجھ کو اس طرح چاہوں کہ تیری سانس رُک جائے

خطاؤں پر خطائیں ہوں نہ ہو کچھ بات کہنے کی
میں تجھ میں یوں سما جاؤں کہ تیری سانس رُک جائے
نہ ہمت تجھ میں ہو باقی نہ ہمت مجھ میں ہو باقی
مگر میں پاس یوں آؤں کہ تیری سانس رُک جائے
حدوں کو توڑ دینے سے محبت کم نہیں ہوتی
تجھے یوں مجھ میں سمٹاؤں کہ تیری سانس رُک جائے
یہ شدّت ایک ہونے کی کہیں مار نہ دے ہم کو
میں تجھ کو کس طرح چاہوں کہ تیری سانس رُک جائے
تو مجھ سے پوچھ لے جانا گُزرتی رات سے پہلے
بتاؤں گا تجھے وہ سب کہ تیری سانس رُک جائے
تیرے ہونٹوں کو میں رکھوں میرے ہونٹوں پہ کچھ ایسے
کہ تیری پیاس بُجھ جائے یا تیری سانس رُک جائے

Post a Comment Blogger

 
Top