0

 ملال اُسکو بچھڑنے کا کچھ تو ہوا ہو گا
کہا نہ ہو گا کسی سے کچھ بھی،سنا تو ہو گا

وصال لمحوں کا عکس سوچوں میں جب بھی جاگا
یہ ہجر آنکھوں میں رات بن کر چبھا تو ہو گا

کبھی کبھی تو ہوائیں آ آ کر پوچھتی ہیں
وہ شخص اپنا بہت ہے،اپنا لگا تو ہو گا

اجڑ گیا ہے گلاب جیسے تو کیا ہوا پھر
یہ دل مسافر فراق رُت کا بسا تو ہو گا

وہ بعد مدت ملا تو پوچھا اُداس کیوں ہو
کہا،جو شعلوں میں گِھر گیا تھا،جلا تو ہو گا

ہزار سپنوں کا زہر پی کر وہ جی رہا تھا
ورنہ یادوں نے آگ بن کر ڈسا تو ہو گا

وفا کی وادی میں،خار راتوں کو جاگتے ہیں
گلاب رُت سے کوئی قصور ہوا تو ہو گا

چلو ستارے تو سارے غیروں نے بانٹ ڈالے
بتول قسمت کے پاس کوئی دیا تو ہو گا۔

Post a Comment Blogger

 
Top